Orhan

Add To collaction

پہلی نظر

پہلی نظر از قلم امرین ریاض قسط نمبر 19 آخری قسط

"گُڈ۔۔۔۔۔۔۔۔"اُسامہ نے سراہا۔ "اب مجھے ان زنجیروں سے نکالو،اب وہاں جانا نہیں۔۔۔۔۔۔۔"راٹھور نے اپنے بندھے وجود کی طرف اشارہ کیا جس پر وہ دونوں معنی خیز سے ہنس دئیے۔ "تُمہیں کس نے کہا کہ تم بھی ہمارے ساتھ جاؤ گئے۔۔۔۔۔۔۔"اُسامہ کی بات پر وہ آنکھیں پھاڑے انکو دیکھنے لگا۔ "کیا مطلب،میں نہیں جاؤنگا پر مجھے آزاد کرنے کا وعدہ کیا تھا تُم دونوں نے۔۔۔۔۔۔۔۔" "آزاد تو کریں گئے اس قید سے بھی اور اس دُنیا کی قید سے بھی۔۔۔۔۔۔"مریام اس کے قریب آ کر اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتا اسکی طرف جُھکا۔ "جہاں تک وعدے کی بات تو وہ تُم نے میری ماما سے بھی کیا تھا کہ اگر وہ تُمہارے پاس آئیں گی تو تُم اُنکی مدد کرو گئے بلوچ کے خلاف اور بدلے میں کیا کیا تُم نے،اُنکی جان لے لی،تُم تو پاپا کے وجاہت انکل کے دوست تھے نہ پھر بھی تم نے دھوکہ دیا اُنکو،تو اب ہم سے رحم کی اپیل کیوں۔۔۔۔۔۔۔۔"مریام نے کہتے ہوئے سعید اور گُھمن کو وہاں سے جانے کا کہا اور اُسامہ کی طرف پلٹا۔ "مجھے اُسکی موت یادگار بنانی ہے اُسامہ شاہ۔۔۔۔۔۔۔"مریام کی بات پر اُسامہ مُسکراتے ہوئے اُٹھا اور اگلے پل گُھمن کے ساتھ ایک سیاہ رنگت والا آدمی کمرے میں داخل ہوا جو شکل سے ہی وحشی لگ رہا تھا۔ "اس کے اتنے ٹکرے کرو کہ کوئی گن بھی نہ پائے۔۔۔۔۔۔۔"مریام نے نفرت انگیز لہجے میں اُس آدمی سے کہا جبکہ راٹھور کا رنگ لٹھے کی مانند سفید ہو چُکا تھا۔ "دیکھو میں نے حاکم کو وہاں بلوایا،میں معافی مانگ لیتا ہوں اگر کہو تو پوری دنیا کے سامنے پر مُجھے مت مارنا میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ گر گرانے لگا۔ "چھوٹے چھوٹے بچے،ساحل یاد ہے تُمہیں چھ سال کا بچہ،کیا اُس پر رحم کھایا تھا تم لوگوں نے،نہیں نہ تو اب کس بات کا واویلا اس لیے خاموشی سے اپنی موت کو انجوائے کرو تُم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مریام کہتے ہوئے اُسامہ کو اشارہ کیا تھا۔ "پانچ منٹ ہیں تُمہارے پاس اُسامہ۔۔۔۔۔۔۔"مریام شاہ نے گھڑی پر ایک نگاہ ڈالی اُسامہ نے اُس آدمی کو اشارہ کیا جس کے ہاتھ میں کُچھ ساز و سامان تھا اُس نے لکڑی کاٹنے والے اوزار نکالے تھے کہ پُورا کمرہ راٹھور کی چیخوں سے گونج اُٹھا تھا جن کو سُنتا مریام شاہ باہر نکل آیا جبکہ اُسکی چیخوں میں اب درد بھری آہ پکار کا اضافہ بھی ہو گیا تھا جو آہستہ آہستہ بند ہو گئیں تھیں جسکا مطلب تھا کہ بُرائی کرنے والا اپنے انجام کو پہنچ چُکا تھا۔

"__________________________________"

"کہاں رہ گیا یہ بلوچ۔۔۔۔۔۔۔"حاکم اپنی گھڑی کی طرف دیکھتا دوبارہ ٹہلنے لگا تبھی دروازہ کُھلا تھا اور کوئی اندر داخل ہوا تھا۔ "تُم کون ہو۔۔۔۔۔۔۔"وہ آنے والے کی طرف دیکھ کر چُونکا تھا جبکہ مریام شاہ بھی علی آفندی جو کہ نہ صرف ایم این اے تھا بلکہ فلاحی ٹرسٹ کا اونر بھی تھا اُسے دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا مریام شاہ کی جیکٹ پر لگی چُپ کی مدد سے باہر کھڑا اُسامہ اور شاہ پیلس میں موجود بُرہان بھی اپنے موبائل کی سکرین میں نظر آتے علی آفندی کو دیکھ کر حیران ہوا تھا۔ "یہ حاکم تھا،یہ تو حسن انکل کا نہ صرف دوست تھا بلکہ وجاہت انکل کا بزنس پارٹنر بھی تھا اور اُس رات یہ بھی مدعو تھا اس فنکشن پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُسامہ کی حیران کُن آواز دونوں نے سُنی تھی مگر جواب نہیں دیا تھا۔ "بتا نہیں رہے کون ہو تم۔۔۔۔۔۔۔" "سمجھ نہیں آ رہا کیا کہوں،حاکم کہوں جو نہ صرف قاتل ہے بلکہ سمگلر اور عورتوں کا بیوپاری بھی ہے یا علی آفندی کہوں جو سیاست میں غریبوں کی مدد کا نعرہ لگا کر آیا اور ایک ایسی فلاحی تنظیم کا اونر ہے جس میں ہزاروں یتیم بچوں اور بیوہ عورتوں کی دیکھ بھال کی جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" "کون،کون ہو تُم،اصغر،خُرم کہاں مر گئے ہو تُم لوگ۔۔۔۔۔۔۔"وہ اپنے بندوں کو بُلانے لگا مگر وہ ہوتے تو آتے نہ وہ تو نہ آئے مگر اُسامہ آ گیا تھا۔ "اوہ تو مریام شاہ،یہ سب تُمہارا پلان تھا،کہاں ہے راٹھور۔۔۔۔۔۔۔"وہ اُسامہ کی طرف دیکھ کر جیسے سب سمجھ گیا۔ "وہ اس وقت بلوچ کے ساتھ بیٹھا میٹنگ کر رہا ہے۔۔۔۔۔"اُسامہ کی بات پر حاکم نے سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔ "فکر نہ کرو تُمہیں بھی اُن کے پاس بھیجنے ہی ہم یہاں آئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔"مریام شاہ نے کہتے ہوئے اُس کی دونوں ٹانگوں اور باذؤوں پر نشانہ کسا تھا جو بلبلاتا ہوا زمین پر گُھٹنے ٹیک گیا تھا۔ "حاکم تُم نے تو دل ہی توڑ دیا میرا،سچی پوچھو تو اب مُجھے ان ٹرسٹ والوں پر بھی اعتبار نہیں رہا،اُوپر سے اتنے ماہان آدمی اور اندر سے اتنی گھٹیا شکل،افسوس تُم نے یہ سب وجاہت بلوچ کو پیچھے ہٹانے کے لیے کیا کیونکہ بارہ سال پہلے تم اُسکی جگہ وزیر قانون بننا چاہتے تھے تا کہ تُمہیں اپنے دو نمبر کاموں میں کوئی رکاوٹ محسوس نہ ہو اور جب اس بات کی تُمہارے بزنس پارٹنر پلس دوست وجاہت بلوچ کو خبر ہوئی تو اس سے پہلے کہ وہ تم تک جاتا یا کوئی ایکشن لیتا تُم نے بلوچ اور راٹھور کے ساتھ مل کر سارا کام ہی ختم کر دیا واہ بہت اچھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مریام شاہ نُقطے سے نُقطہ جوڑتا جیسے اصل کہانی تک جا پہنچا تھا۔ "ہاں ٹھیک کہہ رہے ہو تُم،مریام شاہ کی ماں بھی تُمہاری طرح بہت سمجھدار تھی اُسے بھی سب پتہ لگ گیا تھا،وہ بھی پریس کانفرنس میں سب اوپن کرنا چاہتی تھی اس لیے بہانے سے اُسے بُلایا اور ڈرایا دھمکایا مگر جب وہ نہیں مانی تو آخرکار ہمیں اُسے جلانا پڑا تاکہ آہ۔۔۔۔۔۔۔۔"اُسکی اگلی بات مُنہ میں ہی تھی کہ مریام شاہ نے اُس کے وجود پر گولیوں کی برسات کر دی تھی۔ "مریام یہ کیا،اسے کیوں مارا۔۔۔۔۔۔۔"جب تک اُسامہ نے اسے آ کر روکا حاکم پتھر کا ہو چُکا تھا اُسکا بے جان وجود زمین پر پڑا تھا۔ "نہیں سُن سکتا انکے مُنہ سے اپنی ماں کی موت کا افسانہ،یہاں تکلیف ہوتی ہے اُسامہ یہاں پہ۔۔۔۔۔۔۔۔"اپنے سینے پر اُنگلی رکھی۔ "میں بارہ سال سے اس آگ میں جل رہا ہوں کہ کاش میں اُس دن ماما کے ساتھ جاتا،چاہے اُنکے ساتھ مر ہی جاتا کم از کم سکون تو ملتا اس اذیت سے ہی چُھٹکارا مل جاتا کہ میں سترہ سال کا ہو کر بھی اپنی ماما کو بچا نہیں پایا۔۔۔۔۔۔۔۔"ضبط سے اُسکی آنکھیں لہو رنگ ہو گئیں تھیں ماں کی موت کا دُکھ آج بھی اُسکی آنکھوں سے ہلکوڑے لے رہا تھا جسکو اُسامہ نے محسوس کر کے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اُسے دلاسہ دیا تھا جبکہ دوسری طرف سب سُنتا بُرہان بھی نم آنکھیں لیے وہی بیٹھ گیا تھا۔

"_________________________________"

حاکم کی لاش کو سُمندر میں پھینکوا کر وہ دونوں شاہ پیلس آئے جہاں صندل بُوا اور عامرہ خاتون ڈنر لگا رہی تھیں اور بُرہان شاہ ٹی وی لاؤنج میں بیٹھا ٹی وی دیکھ رہا تھا۔ "کیسے ہو ینگ مین۔۔۔۔۔۔۔"اُسامہ نے اُس کے بالوں کو بکھیرا تھا اور ساتھ صوفے پر ٹک گیا جب مریام شاہ اُس کے قریب آیا تو بُرہان کھڑا ہوتا بے اختیار اُسکے گلے لگا تھا۔ "ارے فوجی ہو کر اتنا چھوٹا دل بُرہان شاہ۔۔۔۔۔۔۔"مریام نے پیار سے اُسکا پیٹ تھپتھپایا تھا مُسکراتے ہوئے اُسکے سر کو چُوما تھا۔ "بُرہان شاہ بچے ہی ہو یار تُم تو۔۔۔۔۔۔۔"اُسامہ چڑانے لگا جس پر بُرہان اور اُسامہ کو آپس میں اُلجھتا چھوڑ کر وہ پرخہ کی تلاش میں ادھر اُدھر دیکھنے لگا جہاں وہ اُسے کمرے سے نکلتی دکھائی دی وہ محبت پاش نظروں سے اُسکی طرف دیکھنے لگا جو اسے بُری طرح اگنور کرتی اُسامہ اور بُرہان کی طرف متوجہ تھی۔ "اُسامہ بھائی اور بُرہان بھائی ڈنر لگ گیا ہے چلیں۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اُنکو بولتی واپسی کو مُڑی تو مریام شاہ نے حیرانگی سے دیکھا جو بنا اسکی طرف دیکھے کسی بھی خُوشی کا اظہار کیے بغیر بنا اسے کھانے کا کہنے وہ واپس مُڑ گئی تھی۔ بُرہان نے مریام شاہ کے حیران چہرے کی طرف دیکھ کر اپنی مُسکراہٹ دبائی تھی اور پھر مریام شاہ کی حیرانگی تب دُور ہوئی تھی جب مریام نے پرخہ کو بُلایا تھا اور وہ سب اُگل گئی تھی۔ "آپ نے مُجھ سے جھوٹ بولا تھا شاہ،آپ کسی میٹنگ میں نہیں بلکہ سی سائیڈ پر اپنی کسی گرل فرینڈ کے ساتھ تھے۔۔۔۔۔۔۔۔" "واٹ یہ کیا بکواس ہے۔۔۔۔۔۔۔"وہ غُصے میں آیا۔ "آپ نے مُجھ سے۔۔۔۔۔۔" "پرخہ ُمجھے بس یہ بتاؤ کہ یہ بکواس تُم سے کی کس نے۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ کرخت لہجے میں بولا تو پرخہ سہم کر پیچھے ہٹی۔ "بُرہان بھائی نے۔۔۔۔۔۔۔۔" "اُسکی تو میں۔۔۔۔۔."دانت پیس کر بولتا وہ چُپ ہو کر گہرا سانس بھر کر بولا۔ "وہ کمینہ تُم سے جھوٹ بول رہا تھا بھلا میں۔۔۔۔۔۔۔" "آپ نے بھی تو جُھوٹ بولا کہ بُرہان اسلام آباد میں ہے بلکہ وہ تو کراچی میں تھا۔۔۔۔۔۔۔۔"پرخہ کے کہنے پر مریام شاہ کی غُصے سے رگیں تن گئیں وہ مُٹھیاں بھینچتا کمرے سے نکلتا سیدھا اُس کے پاس آیا جو اس کے تیور دیکھ کر اُسامہ کے پیچھے چُھپا تھا۔ "پیچھے ہٹ جاؤ اُسامہ ورنہ ایک لگا دُونگا میں۔۔۔۔۔۔" "ہوا کیا ہےمُجھے بھی تو پتہ چلے۔۔۔۔۔۔۔"اُسامہ اسے اشتعال میں دیکھ کر حیرانگی سے بولا۔ "دکھا دی اس خبیث نے اپنی اوقات،پتہ نہیں کونسے جُھوٹ بولے ہیں پرخہ کے سامنے۔۔۔۔۔۔۔"مریام کے سخت لہجے پر اُسامہ نے بمُشکل اپنی مُسکراہٹ چُھپانا چاہی تھی مگر مریام شاہ سے چُھپ نہ سکی۔ "پتہ ہے مجھے تم دونوں کا تم دونوں ہی میری اور پرخہ کی لڑائیاں کروانے کی کوششوں میں ہو پر میں ایسا ہونے نہیں دونگا،تُم دونوں کو شاہ پیلس سے دُور نہ رکھا تو پھر کہنا،ابھی کہہ رہا تھا مجھے اپنے ساتھ رکھو،اسے ساتھ رکھوں جس نے کُچھ گھنٹے میں میری بیوی کی نظر میں مُجھے جھوٹا اور فلرٹی بنا دیا ہے کہ وہ مُجھ سے بات نہیں کر رہی اگر یہ یہاں رہا تو وہ میری شکل بھی دیکھنا نہیں چاہے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مریام شاہ نے تیز نظروں سے اُسے دیکھا تھا۔ "تُمہاری پوسٹنگ تو میں کرواتا ہوں اب۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ کہتا واپسی کو مُڑا۔ "تُم بھی حد کرتے ہو بُرہان کیا ضرورت تھی ایسا کرنے کی۔۔۔۔۔"اُسامہ نے بھی لتاڑا۔ "میں تو بس انجوائے کر رہا تھا دوسرا بھابھی کو اپنا سپورٹر بنانے کی کوشش کر رہا تھا مگر مُجھے کیا پتہ کہ بھابھی پیٹ کی اتنی ہلکی ثابت ہونگی وہ جلد ہی سب بتا دیں گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔"بُرہان کی دُہائی پر جہاں اُسامہ نے اُسے گھورا تھا وہی پرخہ بھی اپنے بیوقوف بنانے پر ساکت ہوئی۔ "بُرہان بھائی مجھے آپ سے یہ اُمید نہیں تھی۔۔۔۔۔۔۔۔"پرخہ کی آواز پر وہ چونکا۔ "اوہ شٹ۔۔۔۔۔۔۔۔"پُورا آدھا گھنٹہ اُسے پرخہ کو منانے میں لگ گیا تھا۔

"__________________________________"

پرخہ کمرے میں آئی جہاں مریام شاہ شرٹ اُتارتا واش رُوم کی طرف جا رہا تھا۔ "شاہ۔۔۔۔۔۔"ہاتھوں کو مسلتی شرمندگی سے وہ سر نہ اُٹھا پا رہی تھی۔ "کیا اپنے بھائی سے کُچھ اور سُن آئی ہو جسکا جواب چاہئیے مُجھ سے۔۔۔۔۔۔"اُس نے طنز کے تیر برسائے تھے جس پر پرخہ کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ پانی برسا تھا جسکو دیکھ کر مریام شاہ کا دل سارا غُصہ ہوا ہو گیا تھا۔ "پرخہ میری جان یہ کیا پاگل پن ہے۔۔۔۔۔۔۔"وہ اُس کے قریب آتا اُسکے آنسو صاف کرنے لگا۔ "آپ ناراض ہیں نہ شاہ،مُجھ سے غلطی ہو گئی میں۔۔۔۔۔۔۔" "ارے کس نے کہا میں ناراض ہوں جسٹ چل یار،بُرہان نے بس مذاق کیا تھا،یہی تو میں سمجھانا چاہ رہا تھا تُمہیں۔۔۔۔۔۔۔"پیار سے اُسے اپنے ساتھ لگایا تھا۔ "مُجھے لگا آپ کسی اور کے ساتھ،اتنے دن تو گھر سے غائب رہتے ہیں شاہ۔۔۔۔۔۔۔۔" "ایسا کبھی سوچنا بھی مت پرخہ کے مریام تُمہارے سوا کسی اور کو نظر بھر کر دیکھے گا بھی،جہاں تک اتنے دن غائب رہنے کی بات ہے تو وہ بھی آج سے کینسل،اب صبح جایا کرونگا اور شام کو واپس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مریام نے اُسے خُوش کر دیا تھا۔ "پھر مجھے گُھمانے بھی لے کر چلیں گئے۔۔۔۔۔۔۔"وہ اُسکے سینے سے سر اُٹھا کر بولی۔ "بلکل،پاکستان کیا پاکستان سے باہر بھی اور دوسری سب سے اسپیشل بات ہمارا ولیمہ بھی ہوگا اگلے ماہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔" "کیا ولیمہ۔۔۔۔۔۔"وہ حیران ہوئی۔ "ہاں کُچھ مصروفیت کی وجہ سے ہم اپنا ولیمہ میں کر پائے مگر اب تو کر سکتے ہیں نہ تا کہ سب کو پتہ چلے کہ مریام شاہ بھی اب شادی شُدہ ہو چُکا ہے اور گرلز مُجھ سے دُور رہیں۔۔۔۔۔۔۔"آخر میں وہ اسے چھیڑنے لگا جس پر وہ اُسے گھورنے لگی۔ "شاہ آپ بھی نہ،اچھا پھر میں شاپنگ لسٹ بناؤں۔۔۔۔۔۔"وہ ایکسائیٹڈ ہونے لگی تھی۔ "لسٹ بھی بنا لینا،پہلے مُجھے تو خُوش کرتی جاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مریام کی بات پر وہ نہ سمجھی سے اُسے دیکھنے لگی مگر اُسکی آنکھوں کی والہانہ چمک پر پلکیں رُخساروں پر لرز کر جُھک گئیں۔ "شاہ آپ شاور لینے لگے تھے نہ۔۔۔۔۔۔"وہ اُسکی گرفت سے نکلنے کی کوشش کرنے لگی مگر بے سود۔ "ارادہ بدلنے میں کب دیر لگتی ہے مائے سویٹ ہارٹ۔۔۔۔۔۔"مریام شاہ نے اُس کے بالوں کو کُھلا چھوڑا اگر مریام شاہ اور پرخہ کی کسی بات پر پسند نہیں ملتی تھی تو وہ مریام شاہ کو اسکے کُھلے بال پسند تھے جبکہ پرخہ کو اپنے کُھلے بالوں سے چڑ تھی۔ "شاہ۔۔۔۔۔۔"پرخہ نے اُس کے بنا شرٹ کے سینے پر ہاتھ رکھ کر کسی بھی گُستاخی سے روکنا چاہا تھا مگر مریام شاہ اُسے اپنے احصار میں لیتا ایک لطیف سی شرارت کر گیا تھا اُسکے پُورے بدن پر جیسے کرنٹ سا دوڑ گیا تھا۔ "اب تو ہر رات میری ہو گی مسز۔۔۔۔۔۔"اُسکا چہرہ اپنے قریب کر کے کان میں سر گوشی کی تو مارے حیا کہ پرخہ سُرخ پڑ گئی جو اسے اپنی گرفت میں لیے ہی بیڈ کی طرف بڑھا تھا اُسکی خُمار آلود سرگوشیوں پر وہ اُس کے سینے میں ہی مُنہ چُھپا گئی جو اس کی پیشانی چومتا اُس کے ہونٹوں پر قائم محبت بھری مُسکان کو چُرانے لگا تھا اور آسمان پر چمکتا چاند جیسے شرماتا ہوا اپنا رُخ موڑ گیا تھا۔

"_ختم شُدہ"

   0
0 Comments